Bol & Axact ke bare me full detail read must all friends

Previous topicNext topic
User avatar
samidrosh123
Senior Registered Member
Senior Registered Member
Posts: 680
Joined: 02 Feb 2015, 3:57 pm
Has thanked: 55 times
Been thanked: 212 times

Bol & Axact ke bare me full detail read must all friends

Post by samidrosh123 »


بول کے حوالے سے اب بھی اکثر لوگ کھوج لگاتے رہتے ہیں۔۔۔ کراچی سے لاہور اور اسلام آباد۔۔۔ آزاد کشمیرسے خیبرپختونخوا۔۔۔۔اور بلوچستان سے تھرپارکر تک تمام لوگ بول کے حوالے سے سوالات ضرور کرتے ہیں۔۔۔ باتیں بے شمار ہیں۔۔ کئی معاملات ایسے ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہوگیا ہے۔۔۔ لیکن بات شروع کرنے سے پہلے میں سب سے پہلے ان اینکرز کی نشاندہی کردوں جو بول کا حصہ تھے اور اب دیگر چینلز میں جاکر وہی کچھ کررہے ہیں جو انہیں بول میں کرنا تھا۔۔۔ اے آر وائی میں منصور علی خان۔۔۔ ماریہ میمن۔۔۔ وڈے چینل (نیلے پیلے) میں جانے والے اسامہ غازی۔۔۔ ٹوئنٹی فور میں مسعود رضا۔۔۔ سمیت کئی بڑے نام وہی منجن بیچ رہے ہیں جو انہیں بول میں بچینا تھا۔۔۔ دوستو۔۔۔بے شک کمائی کرو لیکن اپنی عقل کی بھی کھاو۔۔۔ دوسرے کے آئیڈیاز پر مال بنانے سے کیا فائدہ۔۔۔ اس کے بعد کیا کروگے؟؟۔۔۔
اب بات شروع کرتے ہیں بول۔۔۔ اس پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ میں پرانی صرف موٹی موٹی باتیں ہی کروں گا۔۔۔ میری کوشش ہوگی کہ کچھ نئی باتیں آپ لوگوں کے علم میں آسکیں۔۔۔۔
بول کے خلاف سازش کب شروع ہوئی۔۔۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ایگزیکٹ کے چند ملازمین سافٹ ویئرز کی چوری میں پکڑے گئے اور ان کے پیچھے ایکسپریس کے سلطان لاکھانی کا نام آیا۔۔۔۔یہ نام ایف آئی آر میں درج کرایاگیا جسے بااثر ہاتھوں نے نکلوادیا جس کے بعد اعلی عدالت کے حکم پر یہ نام دوبارہ ایف آئی آر میں ڈالا گیا۔۔۔۔ یہ نقطہ آغاز تھا بول کے خلاف میڈیاہاوسز کے اتحاد کا۔۔۔ اس کے بعد کراچی میں ۔۔۔ چار ٹی وی چینلز مالکان ایک جگہ جمع ہوئے اور ایک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوا کہ بول کی ناکامی میں ہی سب کی بقا اور سلامتی ہے۔۔۔۔۔ کراچی کی ایک معروف تجارتی شخصیت کے مطابق ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق چار ٹی وی چینلز میں سے دو بڑوں نے اپنے قابل اعتبار افراد کو ایگزیکٹ میں ملازمت دلانے میں کامیابی حاصل کی اور ان افراد نے ایگزیکٹ کے راز ان لوگوں کو بتانے شروع کئے۔۔۔پھر چاروں چینلز مالکان کا دوسرا اجلاس دبئی میں وڈے چینل کے مالک کے گھر پر ہوا۔۔۔۔جس میں امریکی سفارتکار بھی شریک تھا۔۔۔ اسی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بول کو روکنے کیلئے ایگزیکٹ کو نشانہ بنایاجائے۔۔۔ جس کے بعد حکومت پر دباو ڈالا جائے کہ اس چینل کو آنے سے روکا جائے۔۔۔۔۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ سلطان لاکھانی ایگزیکٹ سے ایسی کیا چیز چوری کروارہے تھے یا کون سے سافٹ ویئرز پار کرارہے تھے۔۔ تو اس کا بہت آسان جواب یہ ہے کہ اسے آپ کاروباری مخاصمت بھی کہہ سکتے ہیں۔۔ سلطان لاکھانی کی بھی آئی ٹی کمپنی سائبر نیٹ کے کام سے ملک میں کام کررہی ہے اور ایگزیکٹ سے کاروباری معاملے میں میلوں فاصلے پر کھڑی تھی۔۔۔۔یہ سمجھ لیں کہ ایگزیکٹ آئی ٹی کمپنیوں میں وہی مقام رکھتی ہے جو اردو اخبارات میں جنگ کو حاصل ہے۔۔۔۔۔ وڈے چینل کی ایگزیکٹ سے کیا ناراضگی تھی تو اس کا جواب وڈے چینل کے کرتا دھرتا دے سکتے ہیں۔۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ ۔۔۔ بول کے لوگو کے حوالے سے وڈے چینل نے کاپی رائٹس کا کیس کیا تھا جس میں خود وڈے چینل کی جعلسازی عدالت میں ثابت ہوگئی تھی اور یہ لوگ خاموش ہوکر پیچھے ہٹ گئے تھے۔۔۔۔۔ اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ ایگزیکٹ اور بول کے خلاف اسٹوری نیویارک ٹائمز میں چھپوائی گئی۔۔۔ جو ایکسپریس والوں کا انگریزی اخبار ٹریبیون کا پاکستان میں پارٹنر ہے۔۔۔ اسٹوری دینے والا ریاست پاکستان کا ناپسندیدہ شخص۔۔ یعنی ڈیکلن والش۔۔۔ وڈے چینل کی سرپرستی میں ۔۔۔ دنیا چینل کے میاں عامر بھی درمیان میں اس لئے کودے کہ مسلم لیگ نون کا میڈیا سیل بھی اس اتحاد میں شامل تھا اور میڈیا سیل کی باگ ڈور محترمہ مریم نواز کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔ یہ وہی مریم نواز صاحبہ ہیں جنہوں نے بعد میں کچھ لوگوں کو درمیان میں ڈال کر شعیب شیخ کو بول بچینے کی کئی بار پیشکش کی ۔۔۔ ن لیگ کو اندازہ ہے کہ آج جو ٹی وی چینلز ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں کل کو الیکشن کے موقع پر اگر پیچھے ہٹ گئے تو پھر کیا ہوگا؟ اسی لئے وہ اپنی انتخابی مہم کیلئے اپنا ذاتی ٹی وی چینل خریدنے کے لئے بے چین نظر آرہے ہیں اور اس وقت بول ان کے لئے بنے بنائے حلوے سے زیادہ نہیں۔۔۔۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ بول کے خلاف چینلز مالکان کے اجلاس میں امریکی سفارتکار کا کیا کام؟؟؟ تو دوستو۔۔۔ یہ سوچنا آپ لوگوں کو کام ہے کہ امریکی بول کو بند کرانے کیلئے اتنے بے چین کیوں ہورہے تھے؟ وہ کیا مفادات تھے جن کو ٹھیس پہنچنے کے خدشے پر امریکا بھی میدان میں اتر آیا؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا ایگزیکٹ کے خلاف امریکا میں کوئی ثبوت سامنے آیا؟ کیا دنیا کے کسی ملک سے ایف آئی اے کو کوئی گواہ ملا؟ کیا پوری دنیا میں کوئی ایک انسان ایسا نہیں ملا جسے ایگزیکٹ نے جعلی ڈگری بیچی تھی؟ کیا ایف آئی اے والوں نے چالان میں جعلی ڈگریوں کا جرم ڈالا؟ کیا عدالت میں کسی پاکستانی گواہ یا ایگزیکٹ کے کسی ملازم کو پیش کیا کہ وہاں کیا جعلسازی ہورہی تھی؟؟ ٹی وی پر میڈیا کو ہزاروں لاکھوں جعلی ڈگریاں دکھانے والے ایف آئی اے اہلکاروں کے پاس تو اس بات کا بھی جواب نہیں ہے کہ جب ڈگری کو ہاتھ لگایاجارہا تھا تو اس کی سیاہی ہاتھوں پر لگ رہی تھی۔۔۔ کیا ایف آئی اے والے اس بات سے بھی انکار کرینگے کہ ۔۔۔ شعیب شیخ کو جب ایگزیکٹ سے گرفتار کرکے گاڑی میں بٹھایاگیا تو وڈے چینل والوں نے کہا کہ ۔۔۔ فوٹیج نہیں بن سکی۔۔اسے دوبارہ عمارت سے گاڑی کی طرف لاو۔۔ چنانچہ شعیب شیخ کو عمارت سے دوبارہ گاڑی تک لانے کی فوٹیج بنوانے کا آٹھ لاکھ روپے معاوضہ لیا گیا۔۔۔۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے انہی دنوں قومی اسمبلی میں صاف صاف سوال کیا تھا کہ ۔۔۔ یہ ڈگریاں کس نے چھاپی اور کہاں سے لاکر ایگزیکٹ پہنچائی گئی؟؟ اس سوال کا جواب تو کوئی حکومتی وزیر نہیں دے سکا۔۔۔۔ فحش ویب سائٹس کا شور مچانے والے اس وقت منہ میں چوسنی اور فیڈر لے کر کیوں بیٹھ گئے جب ایف آئی اے کے موٹے کرپٹ افسر عطااللہ نے کیمرے کے سامنے آکر کہا تھا کہ ۔۔ ایف آئی اے کو ایگزیکٹ سے فحش ویب سائٹس کے کوئی شواہد نہیں ملے۔۔۔۔۔
:salam:
-
User avatar
samidrosh123
Senior Registered Member
Senior Registered Member
Posts: 680
Joined: 02 Feb 2015, 3:57 pm
Has thanked: 55 times
Been thanked: 212 times

Re: Bol & Axact ke bare me full detail read must all friend

Post by samidrosh123 »

“بول” کیوں نہیں بولا ؟؟
ادیبوں دانشوروں صحافیوں استادوں اور دوستوں سے معذرت کے ساتھ ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بول پاکستانی میڈیا کی تاریخ کا سب سے بڑا نیوز نیٹ ورک تھا، یہاں معیاری اخبار ، میگزین ، مختلف زبانوں سمیت نیوز انٹرٹینمنٹ ، فلم کھیل اور بزنس کے چینلز بیک وقت حاضر ہونے تھے ۔صرف یہی نہیں اس کے ساتھ مزید 4بڑے معاہدے تھے جو بول کی بندش کی وجہ بنےاور ساتھ فی الحال خود بھی بندش کی زد میں ہے۔ پہلا بڑا معاہدہ جن میں گوگل کی جگہ بول والا نے لینی تھی جس میں ہر جگہ کی تازہ تصاویر، میپ ، ویڈیو کلپس پورے پاکستان کا سب ڈیٹا رکھا جاتا ۔ گوگل پاکستان معاہدہ 2018 میں ختم ہونا تھا کیونکہ پاکستان میں انٹرنیٹ سرور کی تمام چیزوں تک رسائی گوگل کی مہربانی سے ہے جوکہ ایک انڈین ٹھیکہ ہے اور یہ بہت اچھا اقدام تھاجو پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خاصے کام آتا۔۔ دوسرامعاہدہ تعلیم کے میدان میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اس کی سمری یو این او اور اے ایم آئی سے تصدیق ہوتے ہوئے پاکستان آئی اور سب متفق تھے جس کی مد میں سالانہ 10ارب روپےتعلیم کے لیے پاکستان آتے اور ایک کروڑ سے زائد بچے تعلیم یافتہ بننے تھے ۔ تیسرا معاہدہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہے ۔آئی ٹی سیکٹر میں رینڈر ھاؤس بنانے والا پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہوتا جہاں فلمیں رینڈر ہوتیں، ساتھ کارٹون ، گرافکس، مایا میکس ، آرکیٹیکچر اور ویبزکے بے شمار پروجیکٹس تیار ہوتے جس سے سالانہ کم ازکم 10کروڑ ڈالر کی کثیر رقم کمائی جا سکتی تھی ۔چوتھا معاہدہ ان سب سے بڑھ کے تھا پاک سیٹلائٹ سسٹم کو اپڈیٹ کرنے کا جو کہ اگر کچھ دوست واقف ہوں تو آپ کی بجلی کے بل میں 35 روپے ماہانہ اس کی فیس ہر گھر ادا کرتا ہے۔جس کے لیے ہمارے دوشمن ممالک دن رات کوشش میں ہیں کہ ایک بار پاک سیٹلائٹ سے رابطہ منقطع ہو تو اپنا ایٹمی طاقت بھی بھول جائیں پھر تو، یہ بات حقیقت ہے کہ ان سب پروجیکٹس سے بول کو اربوں کا۔ فائدہ ہونا تھا ۔لیکن پاکستان کے لیے بھی بڑی تبدیلی تھی ۔

اب آجائیں کہ یہ سب ایک ٹی وی چینل کھولنے والا کیسے سوچ سکتا ہے پچھلے 9سالوں کی سوچ یہ کسی آدمی کی نہیں تھی بلکہ دن رات کام، کرنے والے 11730لوگوں کی ٹیم جو مختلف شعبوں سے وابستہ تھی اور مل کران پانچ پروگرامز پر دن رات کام کر رہے تھے ۔یہ بات بھی سوچنے والی ہے کہ ان 5 پروجکٹس کا آپس میں کیا ملاپ ہے؟ تو سمجنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کہیں نہ کہیں آپس میں جوڑے گئے ہیں اور عجب اتفاق کہا جائے یا سازش لیکن پیسے لگانے والے بھی اپنے دائر ے سے باہر نہیں گئے۔اب سوچیں جیسے کہ گوگل کی جگہ بول والا تھے جو تصویریں، ویڈیو کلپ اور ایڈرس شامل ہونے تھے سب یہیں سے لیتے۔ دوسرا کام تعلیم کے لیے ملنے والی رقوم جس کو ایگزیٹ کے تحت لایا جانا تھا۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی ڈگری جعلی ہوتی ہے یا اصلی لیکن پورا انفرااسٹرکچر ایگزیکٹین کے سپرد تھا۔ اس طرح آئی ٹی کو بھی ایگزیٹ سے جوڑا گیا جو اس کا پرانا دھندا بتایا جاتاہے، سیٹلائٹ سسٹم سے بول کو دو فائدے تھے ایک فری کیبل سروس لیتا ۔فریکوئنسی فری ہوتی ، پاک سیٹ پر گوگل کی جگہ بول والاز تھا جو معاہدے سرور کے گوگل سے ہوتے ہیں سب انکے پاس آتے اور ساتھ مکمل پاکستان سے گزرنے والے تمام سیٹلائٹ لائن کی نگرانی ہوتی اور دنیابھر کے کئی ترقی پذیر ممالک ایسا کرتے ہیں جن میں ہندوستان بھی شامل ہے، جو انڈین چینلز ہم دن رات فری دیکھتےہیں وہ ایسے ہی تو ڈراپ کرتے ہیں اور اب تو ایکسپریس گروپ کا بھی ان سے معاہدہ طے ہوا ہے۔ اگر کچھ دوست واقفیت رکھتے ہوں تو روس کی یہ سب چیزیں اپنی ہیں ۔

ایک طرف ظہیر الاسلام کی غلطی کہ اس نے سارے اختیارات غلط استعمال کئے تو دوسری طرف ایگزیکٹ میں ایک ڈائریکٹر خاتون نے اپنے ساتھ ہو نے والی ہونے گھریلو ناچاقی کا سہارا لےکر عزیزالاسلام کے سارے پول کھولے۔ یہ خاتون لندن منتقل ہو چکی جہاں اسے 87ہزار پاؤنڈ کا ایک فلیٹ ملا ہے۔
واپس آتا ہوں مدعے کی طرف ۔ یہاں یہ بات بتانی بھی ضروری ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر کام اور اس کے لیے پیسے کہاں سےآئے ۔کئی لوگ تو ملک ریاض ، کئی داؤد ابراہیم، کئی اے کے ڈِیڈی اور دیگر کئی کے نام لے رہے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ۔ میری ناقص معلومات، سرکاری تحویلی کاغذات اور اصل مالکوں سے ملاقات میں 27 ارب ڈالر کی رقم ان کاموں کے لیے مختص کرنے والے دُبئی کے 3 بڑے شیخ ہیں۔انہیں کیا فائدہ تھا اور وہ چپ کےسے پاکستان میں اتنے بڑے معاہدے کیوں کر رہے تھے؟ اگر ان سوالوں کے جواب ملتے تو شاہد ایک بھی پروجیکٹ ملتوی نہیں ہوتا۔ ان میں سےایک شیخ کا اہم کارندہ ایجنسیوں کی تحقیقاتی کمیٹی کے تحویل میں ہے جو پاکستان میں ایک بنک اور ایک ٹیلی کام کمپنی کا ڈائریکٹر بھی ہے ،اس نے 9 ارب ڈالر کی امداد کی تصدیق بھی کر دی ہے ۔لیکن یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ وہ ایسے اقدامات کیوں کر رہے تھے؟ اب اس بات کی تصدیق ہونا باقی ہے کہ دُبئی حکومت اس موقع پر ساتھ تھی یا نہیں؟ یا یہ کسی اور ملک کی سوچ ؟لیکن پریشانی ہاں پیدا ہوئی ۔بول کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ بنی کہ انہی پیسوں میں سے 1ارب ڈالر قادری اور عمران خان دھرنوں میں خرچ ہورے تھے ۔اور ائی بی کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ظہیر الاسلام اپنے 16 ساتھیوں سمیت ملک پر قابض ہونا چاہتے تھے۔ کیا یہ بھی اس پروگرام کا حصہ تھا؟ موجودہ حکومت اور حاضر سیٹ اپ نے پلان کو بہت سنجیدہ لیا اور دن رات کھوج لگانے لگے ۔ تمام معاملات کے بعد موجودہ سیٹ اپ نے متنازعہ سمجھ کر تمام معاہدے فوری طور پر روکنے کے لیے اقدامات کیےلیکن ان سب سے بڑھ کر تمام معاملات کو دیکھنے والا ظہیر الاسلام کا بیٹا عزیز اسلام تھا جوکہ پانچوں پروجیکٹس کا اصل مالک ہے، لیکن قانوناً سب کچھ شعیب شیخ کے نام رجسٹر کرکےانھیں احتساب کے لئے پیش کیا گیا جوکہ اب تک غیر قانونی تحویل میں ہیں، ایک طرف ظہیر الاسلام کی غلطی کہ اس نے سارے اختیارات غلط استعمال کئے تو دوسری طرف ایگزیکٹ میں ایک ڈائریکٹر خاتون نے اپنے ساتھ ہو نے والی ہونے گھریلو ناچاقی کا سہارا لےکر عزیزالاسلام کے سارے پول کھولے۔ یہ خاتون لندن منتقل ہو چکی جہاں اسے 87ہزار پاؤنڈ کا ایک فلیٹ ملا ہے۔

ساتھیوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ تنخواہیں 5ماہ کی رُکی ہوں اور 23 اہم عہدیدار دنیابھر کی مہنگی سیر و تفریح پر ہوں تو بات واضح طور پر سا منے آجائے گی ۔لیکن صرف یہی نہیں بول کی خبروں کے لیے پاکستان سے لندن تک 6 بڑے چینلز اور 3 اخباروں کو 19 لاکھ پاؤنڈ ملے یہ رقم بھی کسی نے خرچ کی ہوگی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کس نے کیا اور اگر اس میں اتنے سارے فائدے تھے اور اربوں روپے پاکستان آرہے تھے تو اسے کیو ں بند کرایا کیا گیا؟ کس کی طرف سے بند ہوا سب؟ کیا دبئی حکومت پاکستانی سیٹلائٹ پر قابض ہو رہی تھی جس کے لیے اسنے اتنی بڑی رقم خرچ کی یا کسی اور کی اتنی گہری نظر؟ ثانی معاملات یہاں ایک طرف ، اس بارے میں فی الحال کوئی ثبوت ہاتھ نہیں لگ سکے اب تک ۔۔۔کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی صرف بول کو الگ کر کے بھی چلایا جا سکتا تھا ۔لیکن بول کو بولنے سے روکنے کے لے پوری ایمانداری کے ساتھ اقدامات کئے گئے۔ ذرا دماغ پر وزن بڑھا کر سوچا جائے تو کئی چہرے سامنے آ سکتے ہیں۔ بول کے کیس والے دنوں کامران خان کہاں تھے؟ یہاں ساتھیوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ تنخواہیں 5ماہ کی رُکی ہوں اور 23 اہم عہدیدار دنیابھر کی مہنگی سیر و تفریح پر ہوں تو بات واضح طور پر سا منے آجائے گی ۔لیکن صرف یہی نہیں بول کی خبروں کے لیے پاکستان سے لندن تک 6 بڑے چینلز اور 3 اخباروں کو 19 لاکھ پاؤنڈ ملے یہ رقم بھی کسی نے خرچ کی ہوگی۔سیدھی بات یہ کہ موجودہ حکومت بھی صورتحال سے نمٹنے میں پیش پیش رہی ۔بول کے اقدامات کے وقت سب مذاق سمجھتے رہے ۔جس وقت اظہر عباس نے سیٹ اپ چلانے کا فیصلہ کیا شعیب شیخ بضد کیوں ہوئے ہوسکتا ہے کہ اظہر عباس کی بات اس وقت بھی مان لی جاتی لیکن اس وقت تک اصل مالک سامنے آنے سے کتراتے رہے جب حالات اس قدر پیچیدہ ہوئے کہ تیل کےپیسے بھی رُک گئے تو تب اس نے ہاتھ آگے کیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ۔جب کسی فورم پر شنوائی نہیں ہوئی تو اختیارات سلمان اقبال کے سپرد کیے گئے وہ آن ائیر آف ائیربہت بھاگے دوڑے لیکن موجودہ سیٹ اپ کچھ سننے کو تیار نہیں اور سلمان اقبال بضد ہوئے تو لکس اسٹائل ایوارڈ کا ہاتھ لگا پروجیکٹ بھی واپس ہوا ۔ جس آدمی نے سلمان کے ہاتھ میں 50 کروڑ رکھے تھے وہ پرامید تھا لیکن ‘گئی بھنس پانی میں’ والا حساب رہا ۔جب یہاں کچھ نہیں بنا تو مالک نے جیو کے گروپ مالک سے دبئی میں ملاقات کی وہ ان پروجیکٹس کو ا ٹھانا بھی چاہتے ہیں لیکن فی الحال انکے بھی این او سی کی کوئی امید نہیں ۔اب جب وہاں سے بھی ٹھوس جواب نہ ملا تو ملک ریاض کی باری آئی لیکن اس نے صرف سامان پر استفادہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اب رہے غریب و لاچار مزدور ۔۔دشمن غدار رہنما ہو تو رونے کی ضرورت نہیں انہیں۔ سنا ہے درد اس انگلی میں ہوتا ہے جہاں چوٹ لگی ہو، باقی ہاتھ تو مہندی کے مزے لیتے ہیں ۔۔۔۔بہت دیر ہو چکی اب اگلی تحریر میں یہ بتاؤں گا کہ بول کب اور کون آن ائیر کر رہا ہے؟ کوئی غلطی یا کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت ۔۔۔۔۔۔۔ہاں بول بولے گا ضرور۔۔بس بہت کم دن انتظار کے ہیں
:salam:
-
Previous topicNext topic

Who is online

Users browsing this forum: User avatarApple [Bot], No User AvatarClaude [Bot], No User AvatarDot [Bot], User avatarGoogle Adsense, User avatarYandex [Bot] and 6 guests