کبھی موم بن کے پگھل گیا ، کبھی گرتے گرتے سنبھل گیا
وہ بن کے لمحہ گریز کا ، میرے پاس سے نکل گیا
اسے روکتا بھی تو کس طرح کہ وہ شخص اتنا عجیب تھا
کبھی تڑپ اٹھا میری آہ سے ، کبھی اشک سے نہ پگھل سکا
سر ِ راہ ملا وہ اگر کبھی تو نظر چرا کے گزر گیا
وہ اتر گیا میری آنکھ سے ، میرے دل سے کیوں نہ اتر سکا
وہ چلا گیا جہاں چھوڑ کے ، میں وہاں سے پھر نہ پلٹ سکا
وہ سنبھل گیا یارو مگر میں بکھر کے پھر نہ سنبھل سکا
وہ چلا گیا جہاں چھوڑ کے
Who is online
Users browsing this forum: Apple [Bot],
Claude [Bot] and 2 guests